مدرسہ ڈسکورسز نامی پروگرام سے ہوشیار
یاسر ندیم الواجدی
آج ہی ایک اشتہار دیکھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں یونیورسٹی اور انسٹی ٹیوٹ آف ریلیجس اینڈ سوشل تھاٹ کے اشتراک سے مدرسہ ڈسکورسز انڈیا کا پروگرام منعقد ہورہا ہے۔ اس طرح کے پروگرام دن رات منعقد ہوتے ہیں، لیکن جو چیز قابل توجہ تھی، وہ مہمان ذی وقار کا نام تھا: پروفیسر ابراہیم موسی. کلیدی خطاب کے طور پر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی کا نام بھی درج تھا۔
میں کل ہی یہ سوچ رہا تھا کہ پاکستان میں غامدی فکر کے ترجمان عمار خان ناصر کے زیر انتظام مدرسہ ڈسکورسز نے اپنے وجود کا احساس دلاکر ابھی تک انڈیا کا رخ کیوں نہیں کیا، لیکن افسوس کہ چند گھنٹوں میں ہی یہ انکشاف ہوگیا کہ انڈیا کا نہ صرف یہ کہ رخ ہوچکا ہے، بلکہ پروگرام کے تئیں مذہبی حلقوں میں اعتماد حاصل کرنے کے لیے ایک بڑی علمی شخصیت کو دعوت بھی دیدی گئی ہے۔
مدرسہ ڈسکورسز آخر کیا ہے؟ اس کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس پروگرام کے پیچھے کون سا ادارہ ہے۔ امریکہ کی سب سی بڑی کیتھولک یونیورسٹی نوٹر ڈیم جو امریکی صوبے انڈیانا میں واقع ہے دراصل اس پروگرام کی محرک ہے۔ اس یونیورسٹی کے ایک ذیلی ادارے کے پروفیسر ابراہیم موسی جو اصلا جنوبی افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں مدسہ ڈسکورسز کے ذمے دار بنائے گئے ہیں۔ اس پروگرام کے دوسرے ذمے دار ہیں پروفیسر ماہان مرزا۔ ان دونوں شخصیات کے نظریات پر کچھ کہنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز نامی اس پروگرام کا مقصد کیا ہے۔ نوٹر ڈیم یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر اس پروگرام کا تعارف کراتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ: “اس پروگرام کا مقصد علماء کو پلورلزم، جدید سائنس، اور جدید فلسفہ سے آراستہ کرنا ہے”.
پلورلزم ایک جدید اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے: “یہ نظریہ رکھنا کہ میرا مذہب ہی سچائی کا مصدر نہیں ہے، بلکہ حق دیگر مذاہب میں بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح یہ نظریہ رکھنا کہ مختلف مذاہب ایک عالمگیر سچائی کی الگ الگ تعبیرات ہیں”۔ گویا اسلام کو کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے، بلکہ مسیحی اور یہودی مذاہب بھی درست ہیں کیوں کہ وہ حقانیت ہی کی دوسری تشریح ییں۔ اس نظریے کو جدید ترین اصطلاح میں پرینیلزم بھی کہا جاتا ہے۔ لہذا مدرسہ ڈسکورسز میں فضلائے مدارس کو داخل کرکے یہ تربیت دی جائے گی کہ پلورلزم پر کیسے ایمان لایا جاسکتا ہے اور کیسے یہ جاہلی نظریہ آج کے دور میں ضروری ہے۔
اس پروگرام کے ذمے داران نے اپنی فیس بک پروفائل پر چند تصاویر نشر کی ہیں۔ سترہ جون کی پوسٹ میں ماہان مرزا ان تصاویر کے ساتھ لکھتے ہیں کہ “مدرسہ پروجیکٹ پر ایک سیمنار کی میزبانی پر خوش ہوں۔ سیمینار میں اس میدان کے عظیم اسکالرز نے ابراہیم موسی کی سرپرستی میں شرکت کی”۔ اب ذرا اس مختصر سے سیمینار میں شریک دو تین شخصیات کے حالات ملاحظہ کیجیے تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ ایک عیسائی یونیورسٹی کو ہمارے مدارس کے فضلاء کے مستقبل کی فکر کیوں ہے۔
1- محمد فضل۔ یہ صاحب ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور شریعت میں ہم جنس پرستوں کے نکاح کے لیے گنجائش تلاش کرنے کے حوالے سے امریکی مسلم حلقوں میں مشہور ہیں۔
2-سعدیہ یعقوب۔ یہ محترمہ “فتنہ” نامی مسلم فیمنسٹ گروپ کی شریک بانی ہیں۔ اس گروپ کا فیس بک پیج بھی ہے جس پر وقتا فوقتاً علماء اور مذہبی حلقوں کو شدید نشانہ بنایا جاتا ہے، یہ گروہ اسلام کی نسوانیت پسند تشریح کے لیے مشہور ہے۔
3- ماہان مرزا خود بھی پروگریسیو مسلم یونین نامی تنظیم میں شامل ہیں۔ اس تنظیم کے ویکی پیڈیا پیج پر صاف لکھا ہے کہ اس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ مساجد میں خواتین کی امامت میں اقتدا درست ہے۔ دو ہزار پانچ میں امینہ ودود نے ایک چرچ میں جمعہ کی امامت کرکے پوری دنیا کے اخبارات کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ یہ تنظیم امینہ ودود کی علی الاعلان حمایت کرتی ہے۔ اس تنظیم کے بانی کا نام ہے امید صفی۔
ماہان مرزا اور امید صفی زیتونہ کالج کے مجلے “رینویٹیو” کے ادارتی بورڈ میں شامل ہیں۔ رینویٹیو لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تجدید کے آتے ہیں۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ نوٹر ڈیم نے مدرسہ ڈسکورسز والے پیج پر تجدید نامی ایک اردو مجلے کا لنک بھی دیا ہوا ہے جو یونیورسٹی کی طرف سے شائع ہوتا ہے اور اس کی ادارت انڈیا کے ڈاکٹر وارث مظہری انجام دیتے ہیں۔ معاون ایڈیٹر کے طور پر عمار خان ناصر کا نام ہے جو اس وقت غامدی فکر کے بڑے ترجمان ہیں اور المورد پاکستان کے ذمے داران میں سے ایک ہیں۔
ماہان مرزا جس زیتونہ کالج سے وابستہ ہیں اس کے ذمے دار حمزہ یوسف ایک مشہور مقرر ہیں، لیکن اپنی زندگی کے مختلف اور متضاد اطوار کے لیے جانے جاتے ہیں، حال ہی میں ٹرمپ انتظامیہ کے مشیر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا ہے۔ ان کے استاذ عبد اللہ بن بیہ ایک مشہور علمی شخصیت ہیں۔ ان کی سرپرستی میں چند ماہ پہلے دبئی میں پلورلزم کے عنوان کے تحت حکومت کی ایماء پر عالمی کانفرنس ہوئی۔ مدرسہ ڈسکورسز کے ڈائریکٹر ابراہیم موسی دبئی کانفرنس کے مداحین میں شامل ہیں۔
اس کے بعد عبد اللہ بن بیہ کی موجودگی میں پوپ نے مراکش کا دورہ کیا اور اس کے سامنے اذان اور چرچ کا گانا دونوں ایک ساتھ پڑھے گئے۔ یوٹیوب پر اس کی ویڈیو موجود ہے۔ حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم عالیہ نے اپنے ٹویٹر ہینڈل کے ذریعے اس فکر کے خلاف آواز بلند کی تھی۔
چند روز قبل مدرسہ ڈسکورسز پاکستان کے تحت منعقد ہونے والے پروگرام کی روداد بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ اس پروگرام میں شامل چند مقررین نے جس طرح اپنی فکر کا اظہار کیا اس کے بعد اس گروہ کے عزائم جاننے کے لیے کسی گہرے انویسٹیگیشن کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ سب تفصیلات اس لیے درج کی ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ مدرسہ ڈسکورسز کے نام پر علماء کو بھرتی کرکے انھیں کس طرح ڈھالے جانے اور پھر استعمال کرنے کی کوششوں کا آغاز پاکستان کے بعد انڈیا میں ہونے جارہا ہے اور مغرب کیسے اس جاہلی فکر کو مختلف طریقوں سے اسلامی مشرق پر مسلط کررہا ہے۔ یہ واضح رہے کہ سعودی اسکولوں میں نصاب تعلیم واشنگٹن سے تیار ہورہا ہے، لیکن یہ جبر انڈیا اور پاکستان میں ممکن نہیں ہے، اس لیے یہ طاقتیں اسٹریٹیجی بدل کر مدارس سے وابستہ مذہبی حلقوں تک پہنچ رہی ہیں۔ ہمارے علمائے کرام ہوسکتا ہے کہ ان عزائم سے ناواقف ہوں۔ اس لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہونے والے اس پروگرام سے پہلے علمائے کرام کو حقیقت سے آگاہ کردیا جائے۔ امید ہے کہ حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی دامت برکاتہم العالیہ اور ان جیسی دیگر معتبر شخصیات کا نام ایسے واضح فتنوں کے لیے استعمال نہیں ہوگا۔
نشر و اشاعت میڈیا سیل— تنظيم أئمة المساجد الھندیة
@highlight